۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ یہ آیت انسانوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اپنی غلطیوں کا فوراً اعتراف کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس میں اللہ کی بے پناہ رحمت کا ذکر ہے جو ہر وقت انسانوں کے لیے موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ توبہ کا قبول ہونا انسان کے اخلاص اور جلدی توبہ کرنے پر منحصر ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا. سورۃ النساء، آیت ۱۷

ترجمہ : توبہ خد اکے ذمہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جہالت کی بنائ پر برائی کرتے ہیں اور پھر فورا توبہ کرلیتے ہیں کہ خدا ان کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے وہ علیم و دانا بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی۔

موضوع:

توبہ اور اللہ کی رحمت

یہ آیت اللہ کی رحمت اور توبہ کے قبول ہونے کے موضوع پر ہے، اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ اللہ صرف ان لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو نادانی میں گناہ کرتے ہیں اور فوراً اپنے کیے پر نادم ہو کر توبہ کرتے ہیں۔

پس منظر:

یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو نادانی یا جہالت میں گناہ کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، وہ اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ کرتے ہیں۔ اسلام میں توبہ کو ایک اہم عمل قرار دیا گیا ہے اور اسے اللہ کی طرف سے بندوں کے لیے ایک رحمت کا دروازہ کہا گیا ہے۔ تاہم، یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ توبہ کی قبولیت کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ گناہ جان بوجھ کر نہ کیا جائے اور انسان جلدی اللہ کی طرف پلٹے۔

تفسیر :

1. جہالت کا مطلب: یہاں "جہالت" سے مراد علم کی کمی نہیں، بلکہ گناہ کے برے نتائج کا شعور نہ ہونا ہے۔ انسان نادانی یا جذبات میں بہک کر گناہ کرتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اپنی خطا کو سمجھتا ہے، اس پر نادم ہوتا ہے۔

2. جلدی توبہ کرنا: آیت میں جلدی توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کے بعد انسان کو فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے اور اللہ سے معافی طلب کرنی چاہیے۔ تاخیر یا مسلسل گناہ میں رہنا اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث بن سکتا ہے۔

3. اللہ کا علم اور حکمت: آیت کے آخر میں اللہ کو "علیم" (سب کچھ جاننے والا) اور "حکیم" (حکمت والا) کہا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ ہر ایک کے نیت اور عمل سے واقف ہے اور وہ اپنے علم اور حکمت کے مطابق توبہ قبول کرتا ہے۔

اہم نکات:

1. توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے: جب تک انسان فوراً اپنی غلطی کا احساس کر کے اللہ سے معافی مانگتا ہے، اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔

2. جان بوجھ کر گناہ: اگر کوئی شخص جان بوجھ کر گناہ کرتا ہے اور اسے اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوتا، تو اس کی توبہ قبول ہونے میں شک ہو سکتا ہے۔

3. توبہ کی شرائط: توبہ کے قبول ہونے کی بنیادی شرط ہے کہ انسان سچے دل سے نادم ہو اور مستقبل میں گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔

نتیجہ:

یہ آیت انسانوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اپنی غلطیوں کا فوراً اعتراف کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس میں اللہ کی بے پناہ رحمت کا ذکر ہے جو ہر وقت انسانوں کے لیے موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ توبہ کا قبول ہونا انسان کے اخلاص اور جلدی توبہ کرنے پر منحصر ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ النساء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .